آگ جو دل میں لگی ہے وہ بجھا دی جائے
پھر کوئی تازہ غزل آج سنا دی جائے
زینت جسم بنے روح کو چھلنی کر دے
ایسی ہر رسم زمانے سے مٹا دی جائے
سنتے ہیں عشق کا بازار بہت گرم ہے پھر
قیمت حسن ذرا اور بڑھا دی جائے
اک جھلک کے لیے سو بار سر بام گیا
آتش شوق کو کچھ اور ہوا دی جائے
راز سینے میں دبا ہے جو سر بزم کہوں
صرف اک بار مجھے اس کی رضا دی جائے
زندگی دھوپ میں جلتے ہوئے کاٹی جس نے
سایہ مل جائے کوئی اس کو دعا دی جائے
جا بجا عکس میری آنکھوں میں ابھرے جس کا
اس کی تصویر بھی اب دل سے ہٹا دی جائے
وقت عاجل ہے سفر طول ہے دم آنکھوں میں
رخ جاناں سے نقاب اب تو اٹھا دی جائے
تشنگی آنکھ کی کم ہو کوئی صورت نکلے
پس پردہ ہی جھلک کاش دکھا دی جائے
منجمد کوہ ندا پر ہے تغافل سے ترے
حدت چشم کرم اس پے لٹا دی جائے
مسکراتے ہوئے سر سینے پہ رکھ کر بولے
مرض عشق ہے لازم ہے دوا دی جائے
یہ بھی ممکن ہے مگر تب کہ وہ خود آ کے کہے
بات جو دل کو دکھاتی ہے بھلا دی جائے
غزل
آگ جو دل میں لگی ہے وہ بجھا دی جائے
اسریٰ رضوی