EN हिंदी
آگ ہی کاش لگ گئی ہوتی | شیح شیری
aag hi kash lag gai hoti

غزل

آگ ہی کاش لگ گئی ہوتی

بدیع الزماں خاور

;

آگ ہی کاش لگ گئی ہوتی
دو گھڑی کو تو روشنی ہوتی

لوگ ملتے نہ جو نقابوں میں
کوئی صورت نہ اجنبی ہوتی

پوچھتے جس سے اپنا نام ایسی
شہر میں ایک تو گلی ہوتی

بات کوئی کہاں خوشی کی تھی
دل کو کس بات کی خوشی ہوتی

موت جب تیرے اختیار میں ہے
میرے قابو میں زندگی ہوتی

مہک اٹھتا نگر نگر خاورؔ
دل کی خوشبو اگر اڑی ہوتی