آگ دریا کو اشاروں سے لگانے والا
اب کے روٹھا ہے بہت مجھ کو منانے والا
میرے چہرے پہ نئی شام کھلانے والا
جانے کس اور گیا بزم سجانے والا
نیند ٹوٹے تو اسے دیکھ کے آؤں میں بھی
وہ ہے آنکھوں میں نئے خواب سجانے والا
رات آنکھوں میں کٹی دن کو رہی بے چینی
کیسا ہم درد ہوا درد مٹانے والا
زرد موسم تو کہیں سخت قواعد جاناں
نغمہ کچھ اور نہیں دل کو دکھانے والا
اشک آنکھوں سے ٹپکتے ہیں بہت کھلرؔ جی
ان میں اب رنگ بھرو تم ہی زمانے والا
غزل
آگ دریا کو اشاروں سے لگانے والا
وشال کھلر