EN हिंदी
آگ دریا کو اشاروں سے لگانے والا | شیح شیری
aag dariya ko ishaaron se lagane wala

غزل

آگ دریا کو اشاروں سے لگانے والا

وشال کھلر

;

آگ دریا کو اشاروں سے لگانے والا
اب کے روٹھا ہے بہت مجھ کو منانے والا

میرے چہرے پہ نئی شام کھلانے والا
جانے کس اور گیا بزم سجانے والا

نیند ٹوٹے تو اسے دیکھ کے آؤں میں بھی
وہ ہے آنکھوں میں نئے خواب سجانے والا

رات آنکھوں میں کٹی دن کو رہی بے چینی
کیسا ہم درد ہوا درد مٹانے والا

زرد موسم تو کہیں سخت قواعد جاناں
نغمہ کچھ اور نہیں دل کو دکھانے والا

اشک آنکھوں سے ٹپکتے ہیں بہت کھلرؔ‌ جی
ان میں اب رنگ بھرو تم ہی زمانے والا