آفتاب آئے چمک کر جو سر جام شراب
رند سمجھیں کہ ہے صادق سحر جام شراب
سب کے ہاتھوں پہ تھا شب بھر سفر جام شراب
ہر خط دست بنا رہ گزر جام شراب
دختر رز پہ گریں مست پتنگوں کی طرح
شمع محفل ہو یہ لخت جگر جام شراب
تھام لے دست سبو آئے جو چلنے میں لچک
خط بغداد ہو موئے کمر جام شراب
طور سینا کا گماں ہو خم مے پر سب کو
اس طرح ہوش اڑاؤ اثر جام شراب
ساغر مے میں نہیں پرتو خال ساقی
ہے کف دختر رز میں سپر جام شراب
خاک مے خانہ کی بن جاتی قیامت پس کر
ہر قدم پر جو لچکتی کمر جام شراب
آج مے نوشوں کا مجمع ہے کہاں اے ساقی
کون سی بزم میں ہے شور و شر جام شراب
جتنے مے خوار ہیں ساقی سے گلے ملتے ہیں
سحر عید بنی ہے خبر جام شراب
شیشۂ مے سے اڑا کاگ کبوتر کی طرح
نامہ پہنچانے چلا نامہ بر جام شراب
موج صہبا پہ گرا سپنۂ مینا اڑ کر
ہے مرے سامنے تیغ و سپر جام شراب
مے پلاتا ہے اگر ڈھانپ لے سینہ ساقی
تیرے جوبن کو لگے گی نظر جام شراب
آفتاب آ کے سکھاتا ہے چلن شب بھر کا
رات کو ہوتا ہے اکثر گزر جام شراب
دست ساقی میں رہے دست قدح کش میں رہے
گردن شیشۂ صہبا کمر جام شراب
مست کرتے ہیں دو عالم کو یہی دو خود مست
لذت نغمۂ مطرب اثر جام شراب
کیا غضب ہے کہ ترا ہونٹھ نہ چوسے مائلؔ
اور ہو تیرے لبوں تک گزر جام شراب
غزل
آفتاب آئے چمک کر جو سر جام شراب
احمد حسین مائل