EN हिंदी
آفاق میں پھیلے ہوئے منظر سے نکل کر | شیح شیری
aafaq mein phaile hue manzar se nikal kar

غزل

آفاق میں پھیلے ہوئے منظر سے نکل کر

غلام محمد قاصر

;

آفاق میں پھیلے ہوئے منظر سے نکل کر
چاہا تجھے موجود و میسر سے نکل کر

دن سے بھی اٹھاتے نہیں ہم رات کے پردے
خوابوں کے تعاقب میں ہیں بستر سے نکل کر

دیوار کے سائے میں بھی اک شہر ہے آباد
دیکھا ہی نہیں تو نے کبھی گھر سے نکل کر

چشمے پہ جو پانی کے لیے ہاتھ بڑھاؤں
چنگاریاں آ جاتی ہیں پتھر سے نکل کر

پہچان رہی تھی مجھے ساحل پہ بچھی ریت
اک لہر چلی آئی سمندر سے نکل کر