آفاق میں پھیلے ہوئے منظر سے نکل کر
چاہا تجھے موجود و میسر سے نکل کر
دن سے بھی اٹھاتے نہیں ہم رات کے پردے
خوابوں کے تعاقب میں ہیں بستر سے نکل کر
دیوار کے سائے میں بھی اک شہر ہے آباد
دیکھا ہی نہیں تو نے کبھی گھر سے نکل کر
چشمے پہ جو پانی کے لیے ہاتھ بڑھاؤں
چنگاریاں آ جاتی ہیں پتھر سے نکل کر
پہچان رہی تھی مجھے ساحل پہ بچھی ریت
اک لہر چلی آئی سمندر سے نکل کر
غزل
آفاق میں پھیلے ہوئے منظر سے نکل کر
غلام محمد قاصر