آئیں گے نظر صبح کے آثار میں ہم لوگ
بیٹھے ہیں ابھی پردۂ اسرار میں ہم لوگ
لائے گئے پہلے تو سر دشت اجازت
مارے گئے پھر وادئ انکار میں ہم لوگ
اک منظر حیرت میں فنا ہو گئیں آنکھیں
آئے تھے کسی موسم دیدار میں ہم لوگ
ہر رنگ ہمارا ہے، ہر اک رنگ میں ہم ہیں
تصویر ہوئے وقت کی رفتار میں ہم لوگ
یہ خاک نشینی ہے بہت، ظل الٰہی
جچتے ہی نہیں جبہ و دستار میں ہم لوگ
اب یوں ہے کہ اک شخص کا ماتم ہے مسلسل
چنوائے گئے ہجر کی دیوار میں ہم لوگ
سنتے تھے کہ بکتے ہیں یہاں خواب سنہرے
پھرتے ہیں ترے شہر کے بازار میں ہم لوگ
غزل
آئیں گے نظر صبح کے آثار میں ہم لوگ
عزیز نبیل