آئے تھے ان کے ساتھ نظارے چلے گئے
وہ شب وہ چاندنی وہ ستارے چلے گئے
شاید تمہارے ساتھ بھی واپس نہ آ سکیں
وہ ولولے جو ساتھ تمہارے چلے گئے
کشتی تڑپ کے حلقۂ طوفاں میں رہ گئی
دیکھو تو کتنی دور کنارے چلے گئے
ہر آستاں اگرچہ ترا آستاں نہ تھا
ہر آستاں پہ تجھ کو پکارے چلے گئے
شام وصال خانۂ غربت سے روٹھ کر
تم کیا گئے نصیب ہمارے چلے گئے
دیکھا تو پھر وہیں تھے چلے تھے جہاں سے ہم
کشتی کے ساتھ ساتھ کنارے چلے گئے
محفل میں کس کو تاب حضور جمال تھی
آئے تری نگاہ کے مارے چلے گئے
جاتے ہجوم حشر میں ہم عاصیان دہر
اے لطف یار تیرے سہارے چلے گئے
دشمن گئے تو کشمکش دوستی گئی
دشمن گئے کہ دوست ہمارے چلے گئے
جاتے ہی ان کے سیفؔ شب غم نے آ لیا
رخصت ہوا وہ چاند ستارے چلے گئے
غزل
آئے تھے ان کے ساتھ نظارے چلے گئے
سیف الدین سیف