آئے تھے کیوں صحرا میں جگنو بن کر
تپتی لو میں ہلکی سی خوشبو بن کر
چلنا، رکنا دونوں میں بربادی ہے
دشت وفا میں آئے تو ہو آہو بن کر
کچھ تو عجب ہے ورنہ آج کی دنیا میں
رہتا کون ہے کس کا اب بازو بن کر
آئینہ خانہ دل کا تب مسمار ہوا
آئی حقیقت سامنے جب جادو بن کر
سارا زمانہ سر آنکھوں پر لیتا ہے
رسوا ہوں گھر میں اپنے اردو بن کر
کچھ تو جنوں کو اپنے تغیر کرنا تھا
خون جگر ہی بہہ نکلا آنسو بن کر
روح میں بھی کیا اترے ہیں معنی اس کے
یوں تو سراپا رہتے ہو یاہو بن کر
یوں تو بیاں اس حسن کا کرنا تھا دشوار
آیا مرے اشعار میں کچھ پہلو بن کر
کب کر دیں سیراب کسی کو وہ، ان کے
سر سے گھٹائیں لپٹی ہیں گیسو بن کر
ان کے اشارے یوں بھی قاتل ہیں خالدؔ
اور قیامت ہوتی ہے ابرو بن کر

غزل
آئے تھے کیوں صحرا میں جگنو بن کر
قیصر خالد