آئے ہیں ہم جہاں میں غم لے کر
دل پر خوں و چشم نم لے کر
ساغر مے کہاں ہے اے گردوں
کیا کریں تیرا جام جم لے کر
وعدہ اقسام کر چکا تو خلاف
اب کے چھوڑوں گا میں قسم لے کر
اس کی محفل سے کب اٹھے گا رقیب
یہ سعادت بھرے قدم لے کر
تر و خشک جہاں پہ قانع رہ
دست دوراں سے بیش و کم لے کر
سر سے مارا کریں پڑے اپنے
گو شہاں طبل اور علم لے کر
راہ میں تیری ضعف سے حسرتؔ
چلے ہر ہر قدم میں دم لے کر
غزل
آئے ہیں ہم جہاں میں غم لے کر
حسرتؔ عظیم آبادی