EN हिंदी
آئے ہیں ہم جہاں میں غم لے کر | شیح شیری
aae hain hum jahan mein gham le kar

غزل

آئے ہیں ہم جہاں میں غم لے کر

حسرتؔ عظیم آبادی

;

آئے ہیں ہم جہاں میں غم لے کر
دل پر خوں و چشم نم لے کر

ساغر مے کہاں ہے اے گردوں
کیا کریں تیرا جام جم لے کر

وعدہ اقسام کر چکا تو خلاف
اب کے چھوڑوں گا میں قسم لے کر

اس کی محفل سے کب اٹھے گا رقیب
یہ سعادت بھرے قدم لے کر

تر و خشک جہاں پہ قانع رہ
دست دوراں سے بیش و کم لے کر

سر سے مارا کریں پڑے اپنے
گو شہاں طبل اور علم لے کر

راہ میں تیری ضعف سے حسرتؔ
چلے ہر ہر قدم میں دم لے کر