آدمی کی حیات مٹھی بھر
یعنی کل کائنات مٹھی بھر
ہاتھ بھر کا ہے دن بچھڑنے کا
اور ملنے کی رات مٹھی بھر
کیا کرو گے سمیٹ کر دنیا
ہے جو دنیا کا ساتھ مٹھی بھر
کر گیا کشت آرزو شاداب
آپ کا التفات مٹھی بھر
اور ملنا بھی کیا سرابوں سے
ریت آئے گی ہاتھ مٹھی بھر
حوصلہ یوں نہ ہارتے اعجازؔ
ہو گئی تھی جو مات مٹھی بھر
غزل
آدمی کی حیات مٹھی بھر
غنی اعجاز