آدمی خود کو بھلا کیسے بچا لے جائے گا
جس جگہ مرنا ہے اس کو حادثہ لے جائے گا
میں اگر طوفان سے بچ بھی گیا تو کیا ہوا
میری کشتی کو بھنور میں نا خدا لے جائے گا
آج پھر زخم جگر تازہ ہے پہلے کی طرح
آج پھر مجھ کو ترا غم مے کدہ لے جائے گا
آڑ میں تفریح کی تم چھوڑ دو عیاشیاں
ورنہ پھر پانی سمندر کا بہا لے جائے گا
آدمی کے ساتھ جائیں گے فقط اس کے عمل
اور اپنے ساتھ وہ دنیا سے کیا لے جائے گا
کس لیے فریاد لے کے جاؤں میں منصف کے پاس
جب ستم گر اپنے حق میں فیصلہ لے جائے گا
سوچ اے انساں تری ہستی کی ہے کتنی بساط
تجھ کو جب طوفاں کا اک جھونکا اڑا لے جائے گا
اس کے سر پہ عافیت کا سائباں ہوگا ضرور
ساتھ جو خنجر بزرگوں کی دعا لے جائے گا

غزل
آدمی خود کو بھلا کیسے بچا لے جائے گا
خنجر غازی پوری