آدمی بھی آدمی کا راز داں ہوتا نہیں
بے خبر رہتا ہے لیکن بد گماں ہوتا نہیں
زحمتیں یکساں مکان و لا مکاں سے کیا ہوا
کیا خلاؤں سے پرے بھی آسماں ہوتا نہیں
ہم کہ خود رہرو بھی ہیں رہبر بھی ہیں رہزن بھی ہیں
واں پہنچتے ہیں جہاں پر کارواں ہوتا نہیں
بڑھ گئے اخوان یوسف سے یہ اخوان الصفا
پھینک دیتے ہیں وہاں جس جا کنواں ہوتا نہیں
ہے جراحت آفریں درمان درد لا دوا
شعلہ کرتا ہے شررباری دھواں ہوتا نہیں
حسن بے پردا حریف تاب نظارہ نہیں
ہو نظر کے سامنے لیکن عیاں ہوتا نہیں
مرگ بے ہنگام اپنے شہر کا معمول ہے
لوگ مر جاتے ہیں کوئی نوحہ خواں ہوتا نہیں
جو بھی ہو جس حال میں ہے زندگی اس کو عزیز
جان جاں کہنے سے کچھ جان جہاں ہوتا نہیں
بے اداکاری بھی خاموشی سے مر جاتے ہیں لوگ
یاں پہ کوئی کھیل مرزا صاحباں ہوتا نہیں
غزل
آدمی بھی آدمی کا راز داں ہوتا نہیں
خالد حسن قادری