آدمی اور درد سے نا آشنا ممکن نہیں
عکس سے خالی ہو کوئی آئینہ ممکن نہیں
آدمی انسان کامل بن تو سکتا ہے مگر
زندگی بھر رہ سکے وہ پارسا ممکن نہیں
دو کنارے جیسے دریا کے نہیں ملتے کبھی
ہم سے اقدام جفا ان سے وفا! ممکن نہیں
کار فرما جب رہے برق نظر آٹھوں پہر
شہر بھر میں ہو نہ کوئی حادثہ! ممکن نہیں
کس قدر ہمت شکن ہے گمرہی کا یہ جواز
رہبری از ابتدا تا انتہا ممکن نہیں
شیشہ کوئی چور ہو جائے تو پھر کس کام کا
مٹ کے ہو آباد ایوان وفا ممکن نہیں
آپ پتھر کو نچوڑیں اس سے کیا حاصل متینؔ
تنگ دل انسان ہو حق آشنا ممکن نہیں
غزل
آدمی اور درد سے نا آشنا ممکن نہیں
متین نیازی