آدمی آدمی سے ملتے ہیں
آپ بھی کیا کسی سے ملتے ہیں
یہ حسیں جس کسی سے ملتے ہیں
جانتا ہے مجھی سے ملتے ہیں
ہم سے فرقت نصیب کیا جانیں
جو مزے زندگی سے ملتے ہیں
کیا بتائیں جنوں میں کیا کیا لطف
ہم کو ان کی ہنسی سے ملتے ہیں
کیا کہیں جب وہ ملتے ہیں تنہا
ان سے ہم کس خوشی سے ملتے ہیں
اس کی صورت کو پھر کوئی دیکھے
جس سے وہ بے رخی سے ملتے ہیں
ان کی رخصت کے وقت ہم ان سے
ہائے کس بیکسی سے ملتے ہیں
لاکھ غم زندگی ہے خود یعنی
لاکھ غم زندگی سے ملتے ہیں
اپنے مذہب میں ہے نفاق حرام
جس سے ملتے ہیں جی سے ملتے ہیں
سخن داغؔ کے مرے راغبؔ
سخن شوقؔ ہی سے ملتے ہیں
غزل
آدمی آدمی سے ملتے ہیں
راغب بدایونی