آدھی آدھی رات تک سڑکوں کے چکر کاٹیے
شاعری بھی اک سزا ہے زندگی بھر کاٹیے
شب گئے بیمار لوگوں کو جگانا ظلم ہے
آپ ہی مظلوم بنیے رات باہر کاٹیے
جال کے اندر بھی میں تڑپوں گا چیخوں گا ضرور
مجھ سے خائف ہیں تو میری سوچ کے پر کاٹیے
کوئی تو ہو جس سے اس ظالم کی باتیں کیجیئے
چودھویں کا چاند ہو تو رات چھت پر کاٹیے
رونے والی بات بھی ہو تو لطیفہ جانیے
عمر کے دن کاٹنے ہی ہیں تو ہنس کر کاٹیے
غزل
آدھی آدھی رات تک سڑکوں کے چکر کاٹیے
نثار ناسک