عادتاً مایوس اب تو شام ہے
ہجر تو بس مفت ہی بدنام ہے
آج پھر دھندلا گیا میرا خیال
آج پھر الفاظ میں کہرام ہے
الگنی پر ٹانگ کر دن کا لباس
رات کو اب چین ہے آرام ہے
نقص تعبیروں میں کیوں کرنا رہے
خواب ہی جب کے ہمارا خام ہے
مختلف شکلیں بنانا وقت کا
بس یہی تو گردش ایام ہے
اس فراق نا تواں میں آج پھر
یہ غزل بھی لو تمہارے نام ہے
برف کے دریا کنارے آفتاب
یا وہاں معشوق لالہ فام ہے
فلسفہ کوئی ضروری تو نہیں
مسخری بھی شاعری میں عام ہے
یار بتلا دو مجھے اس کا پتہ
مجھ کو الفتؔ سے ذرا سا کام ہے
غزل
عادتاً مایوس اب تو شام ہے
شاداب الفت