آبرو کی کسے ضرورت ہے
جان بچ جائے تو غنیمت ہے
دیر تک ساتھ دے نہیں سکتا
جھوٹ کی بس یہی حقیقت ہے
بے ضرورت بھی کر لیا سجدہ
یہ عبادت بڑی عبادت ہے
میں محبت تجھے نہیں کرتا
تو فقط روح کی ضرورت ہے
دشت ویراں رہے اگر تو پھر
دعوئ عاشقی پے لعنت ہے
کوئی شکوہ گلہ نہیں باقی
اب اسی بات کی شکایت ہے
غزل
آبرو کی کسے ضرورت ہے
سنیل کمار جشن