آبروئے شب تیرہ نہیں رکھنے والے
ہم کہیں پر بھی اندھیرا نہیں رکھنے والے
آئنہ رکھنے کا الزام بھی آیا ہم پر
جب کہ ہم لوگ تو چہرا نہیں رکھنے والے
ہم پہ فرہاد کا کچھ قرض نکلتا ہے سو ہم
تم کہو بھی تو یہ تیشہ نہیں رکھنے والے
ہم کو معلوم ہیں از روئے محبت سو ہم
کوئی بھی درد زیادہ نہیں رکھنے والے
غزل
آبروئے شب تیرہ نہیں رکھنے والے
ابھیشیک شکلا