آبلے پاؤں کے کیا تو نے ہمارے توڑے
خار صحرائے جنوں عرش کے تارے توڑے
ذقن و رخ میں نہ جاسوسوں سے باقی رکھی
ثمر گل چمن حسن کے سارے توڑے
سلسلہ اپنی گرفتاری کا کب قطع ہوا
پہنی پازیب انہوں نے جو اتارے توڑے
مست مجھ سا بھی کوئی نشہ کا ہوگا نہ حریص
پی کے مے جام کے دانتوں سے کنارے توڑے
شربت وصل ہے تنقید کی خاطر موجود
تپ ہجر آ کے بدن کو نہ ہمارے توڑے
ختم دزدیدہ نگہ پر ہے تری طراری
دل نہیں توڑے احبا کے پٹارے توڑے
آ گیا وہ شجر حسن نظر جب ہم کو
بوسہ لے کر لب شیریں کے چھوارے توڑے
عشق بے درد سے کرنے کو کہا تھا کس نے
سر کو ٹکرا کے نہ دل درد کے مارے توڑے
کنج عزلت میں بٹھایا ہے خدا نے آتشؔ
اب جو تم یاں سے ہلے پاؤں تمہارے توڑے
غزل
آبلے پاؤں کے کیا تو نے ہمارے توڑے
حیدر علی آتش