آبلہ پائی سے ویرانہ مہک جاتا ہے
کون پھولوں سے مرا راستہ ڈھک جاتا ہے
مصلحت کہتی ہے وہ آئے تو کیوں آئے یہاں
دل کا یہ حال ہر آہٹ پہ دھڑک جاتا ہے
کیا سر شام نہ لوٹوں گا نشیمن کی طرف
کیا اندھیرا ہو تو جگنو بھی بھٹک جاتا ہے
ایک دیوانہ بھٹکتا ہے بگولہ بن کر
ایک آہو کسی وادی میں ٹھٹھک جاتا ہے
کوئی آواز کہیں گونج کے رہ جاتی ہے
کوئی آنسو کسی عارض پہ ڈھلک جاتا ہے
قافلہ عمر کا پیہم سفر آمادہ سہی
شجر سایہ فگن دیکھ کے تھک جاتا ہے
شاذؔ اس کوشش تمکیں پہ بہت ناز نہ کر
یہ چراغ تہ داماں بھی بھڑک جاتا ہے
غزل
آبلہ پائی سے ویرانہ مہک جاتا ہے
شاذ تمکنت