EN हिंदी
آبلہ خار سر مژگاں نے پھوڑا سانپ کا | شیح شیری
aabla Khaar-e-sar-e-mizhgan ne phoDa sanp ka

غزل

آبلہ خار سر مژگاں نے پھوڑا سانپ کا

امداد علی بحر

;

آبلہ خار سر مژگاں نے پھوڑا سانپ کا
سیلیٔ زلف رسا نے کلا توڑا سانپ

پنجۂ دنداں تری کنگھی نے موڑا سانپ کا
کر کے گیسوئے کلائی ہاتھ توڑا سانپ کا

کودکی سی میرے سر پر عشق گیسو ہے سوار
چوب کی بدلی بناتا تھا میں گھوڑا سانپ کا

بار فرعونی پہ تیری زلف اگر باندھے کمر
اژدر موسی کے توسن پر ہو کوڑا سانپ کا

میں ہوں وہ رنجور گیسو عکس اگر میرا پڑے
مہرۂ ہر استخواں بن جائے پھوڑا سانپ کا

جب سیہ بوتل سے مے ریزی ہوئی دور فراق
میں یہ سمجھا زہر ساقی نے نچوڑا سانپ کا

ہے قدم اس کا ہوا پر پاؤں اس کا خاک پر
زلف کے مشکی کو کب پاتا ہے گھوڑا سانپ کا

عاشق زلف سیہ کو اس طرح تعزیر دو
سانپ کی رسی بناؤ اور کوڑا سانپ کا

زلف کج رفتار کی کب چال چل سکتا ہے وہ
ایسی ٹھوکر کھائے سر بن جائے روڑا سانپ کا

ایک دن ہو جائے گا روشن سیہ کاری کا حال
دونوں بغلوں میں جریدے ہیں کہ جوڑا سانپ کا

جانتا ہوں میں ترے راس و ذنب کو اے فلک
میرے ڈسنے کے لیے پالا ہے جوڑا سانپ کا

کیا تعجب حسن جاناں سے اگر پوچھے گزند
خال میں بچھو کا جوڑا زلفیں جوڑا سانپ کا

سانپ کے کاٹے کی لہر آئے جو وصف زلف میں
بحرؔ نے پھر تو کوئی مضموں نہ چھوڑا سانپ کا