آبلہ ہے کہ گھاؤ جو بھی ہے
سامنے میرے لاؤ جو بھی ہے
چاک سے اب مجھے اتارو بھی
میری صورت دکھاؤ جو بھی ہے
جو نہیں اس کی کیا پریشانی
خیر اس کی مناؤ جو بھی ہے
رکھ دیا ہے تمہارے چگنے کو
درد کی فاختاؤ جو بھی ہے
ہم ترے در سے اب نہ اٹھیں گے
تیرا ہم سے سبھاؤ جو بھی ہے
دوست تو اپنے آپ بنتے ہیں
کوئی دشمن بناؤ جو بھی ہے
پا گئے ہیں تمہارا بھید سبھی
اپنا بھاؤ گراؤ جو بھی ہے
عشق کی بد دعا لگی ہے تمہیں
بیٹھے دنیا کماؤ جو بھی ہے
منتظر ہیں سماعتیں سب کی
اپنی اپنی سناؤ جو بھی ہے
یہ نشانی ہے اک پیمبر کی
یہ شکستہ سی ناؤ جو بھی ہے
جرعہ جرعہ میں پی رہا ہوں منیرؔ
میرے دل میں الاؤ جو بھی ہے
غزل
آبلہ ہے کہ گھاؤ جو بھی ہے
منیر سیفی