EN हिंदी
آباد رہیں گے ویرانے شاداب رہیں گی زنجیریں | شیح شیری
aabaad rahenge virane shadab rahengi zanjiren

غزل

آباد رہیں گے ویرانے شاداب رہیں گی زنجیریں

حفیظ میرٹھی

;

آباد رہیں گے ویرانے شاداب رہیں گی زنجیریں
جب تک دیوانے زندہ ہیں پھولیں گی پھلیں گی زنجیریں

آزادی کا دروازہ بھی خود ہی کھولیں گی زنجیریں
ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی جب حد سے بڑھیں گی زنجیریں

جب سب کے لب سل جائیں گے ہاتھوں سے قلم چھن جائیں گے
باطل سے لوہا لینے کا اعلان کریں گی زنجیریں

اندھوں بہروں کی نگری میں یوں کون توجہ کرتا ہے
ماحول سنے گا دیکھے گا جس وقت بجیں گی زنجیریں

جو زنجیروں سے باہر ہیں آزاد انہیں بھی مت سمجھو
جب ہاتھ کٹیں گے ظالم کے اس وقت کٹیں گی زنجیریں