آباد اب نہ ہوگا مے خانہ زندگی کا
لبریز ہو چکا ہے پیمانہ زندگی کا
آ خواب میں کسی دن اے رشک ماہ تاباں
کر دے ذرا منور کاشانہ زندگی کا
وہ تازہ داستاں ہوں مرنے کے بعد ان کو
آئے گا یاد میرا افسانہ زندگی کا
پردہ ذرا اٹھا دے بانکی اداروں والے
افسانہ کہنے آیا دیوانہ زندگی کا
امیدیں مٹ نہ جائیں نظریں نہ پھیر ظالم
برباد کر نہ میرا کاشانہ زندگی کا
ہے وقت نزع ظالم بالیں پہ دیکھ کر
دم توڑتا ہے کیسے دیوانہ زندگی کا
خون جگر بہا کر آنکھوں سے اپنی انورؔ
رنگین کر رہا ہوں افسانہ زندگی کا
غزل
آباد اب نہ ہوگا مے خانہ زندگی کا
انور سہارنپوری