EN हिंदी
آب میں ذائقۂ شیر نہیں ہو سکتا | شیح شیری
aab mein zaiqa-e-shir nahin ho sakta

غزل

آب میں ذائقۂ شیر نہیں ہو سکتا

علی یاسر

;

آب میں ذائقۂ شیر نہیں ہو سکتا
خواب تو خواب ہے تعبیر نہیں ہو سکتا

مجھ کو پابند سلاسل کوئی جتنا کر لے
پر مرا عزم تو زنجیر نہیں ہو سکتا

ہر طرف غل ہے شہنشاہ کی مرضی کے بغیر
اب کوئی لفظ بھی تحریر نہیں ہو سکتا

رزق جیسا ہے مقدر میں لکھا ہوتا ہے
فن کسی شخص کی جاگیر نہیں ہو سکتا

ہم نے دروازۂ مژگاں پہ سجا رکھا ہے
وہ ستارا کہ جو تسخیر نہیں ہو سکتا