آب کی تاثیر میں ہوں پیاس کی شدت میں ہوں
ابر کا سایہ ہوں لیکن دشت کی وسعت میں ہوں
یوں تو اپنا لگ رہا ہے جسم کا یہ گھر مجھے
روح لیکن کہہ رہی ہے دیکھ میں غربت میں ہوں
اور تو اپنی خبر ہے سب مجھے اس کے سوا
کون ہوں کیوں ہوں کہاں ہوں اور کس حالت میں ہوں
یاد بھی آتا نہیں کچھ بھولتا بھی کچھ نہیں
یا بہت مصروف ہوں میں یا بہت فرصت میں ہوں
میں ہوا بیدار تو ہر شخص یہ کہنے لگا
نیند میں ہوں خواب میں ہوں یا کسی غفلت میں ہوں
زندگی نے کیا دیا تھا موت نے کیا لے لیا
خاک سے پیدا ہوا تھا خاک کی صحبت میں ہوں
غزل
آب کی تاثیر میں ہوں پیاس کی شدت میں ہوں
بھارت بھوشن پنت