آب رواں ہوں راستہ کیوں نہ ڈھونڈ لوں
میں تیرے انتظار میں کب تک رکا رہوں
تاریکیاں محیط ہیں ہر انجمن پہ آج
لازم نہیں کہ میں تری محفل میں ہی جلوں
گھبرا رہا ہے جی مرا تن کے مکان میں
مجبوریوں کے سائے میں کب تک پڑا رہوں
نکلا ہوں تیری بزم سے مانند دود شمع
چاہوں بھی اب کبھی تو میں واپس نہ آ سکوں
ملنا ترا تو خیر بڑی بات ہے مگر
اتنا بھی کم نہیں ہے کہ میں خود کو ڈھونڈ لوں
خود سے بھی کوئی ربط نہیں میرا ان دنوں
تجھ سے تعلقات کی تجرید کیا کروں
آنکھیں بجھی بجھی ہیں تو منظر مٹے مٹے
اے زندگی کہاں سے تجھے آب و رنگ دوں
روحیؔ یہ دور زیست مسلسل عذاب ہے
کھل کر نہ ہنس سکوں نہ کبھی کھل کے رو سکوں
غزل
آب رواں ہوں راستہ کیوں نہ ڈھونڈ لوں
روحی کنجاہی