EN हिंदी
آنکھوں پہ ابھی تہمت بینائی کہاں ہے | شیح شیری
aaankhon pa abhi tohmat-e-binai kahan hai

غزل

آنکھوں پہ ابھی تہمت بینائی کہاں ہے

رؤف خیر

;

آنکھوں پہ ابھی تہمت بینائی کہاں ہے
تو خود ہی تماشہ ہے تماشائی کہاں ہے

آئینہ ہوئی تشنگی پایابیٔ جاں سے
چہرے پہ تو لکھی ہوئی رسوائی کہاں ہے

ان جاگتی آنکھوں کو ملے دھوپ کے بازار
اے دل وہ پگھلتی ہوئی تنہائی کہاں ہے

سورج ہے کہ بس نوک پہ سوئی کی کھڑا ہے
اب فرصت کم کم بھی مرے بھائی کہاں ہے

خوں چوستے لمحوں سے کہو ہاتھ پساریں
احساس کی صورت ابھی زردائی کہاں ہے

کچھ اور بکھر کر کہیں پہچان نہ کھو لوں
اس شہر کو مٹی مری راس آئی کہاں ہے

وہ شخص بڑے چاؤ سے کچھ پوچھ رہا ہے
تو ایسے میں اے لذت گویائی کہاں ہے

خیر اپنوں میں اک ہم ہی نکل آئے ہیں شاعر
شہزادگیٔ شوق یہ آبائی کہاں ہے