آنکھوں میں ستارے سے چمکتے رہے تا دیر
اک گھر کے در و بام کو تکتے رہے تا دیر
آنسو تو ہوئے خشک پہ گریہ رہا جاری
بچوں کی طرح رو کے سسکتے رہے تا دیر
اس شاخ سے اک مار سیہ لپٹا ہوا تھا
لیکن وہیں طائر بھی چہکتے رہے تا دیر
کیا لمس تھا اس دست حنائی کا تہہ آب
انگارے سے ہاتھوں میں دہکتے رہے تا دیر
اک آگ سی جلتی رہی تا عمر لہو میں
ہم اپنے ہی احساس میں پکتے رہے تا دیر
وہ گرمیٔ انفاس وہ جاڑے کی خنک رات
احساس میں شعلے سے لپکتے رہے تا دیر
غزل
آنکھوں میں ستارے سے چمکتے رہے تا دیر
سلیم احمد