EN हिंदी
آ ترے سنگ ذرا پینگ بڑھائی جائے | شیح شیری
aa tere sang zara peng baDhai jae

غزل

آ ترے سنگ ذرا پینگ بڑھائی جائے

شمیم عباس

;

آ ترے سنگ ذرا پینگ بڑھائی جائے
زندگی بیٹھ تجھے چائے پلائی جائے

یار بس اتنا ہی تو چاہتے ہیں ہم تجھ سے
یاری کی جائے تو پھر یاری نبھائی جائے

جیسی ہے جتنی ہے اوقات سے بڑھ کر ہے مجھے
کیوں ضرورت سے سوا ناک بڑھائی جائے

جب بھی میں کرتا کہہ لیتے ہو اپنے من کی
کبھی میری بھی سنی جائے سنائی جائے

خواب دکھلائیں مگر خواب کی تعبیر نہ دیں
بھاڑ میں ایسے خداؤں کی خدائی جائے