آ کے مجھ تک کشتیٔ مے ساقیا الٹی پھری
آج کیا ندی بہی الٹی ہوا الٹی پھری
آتے آتے لب پر آہ نارسا الٹی پھری
وہ بھی میرا ہی دبانے کو گلا الٹی پھری
مڑ کے دیکھا اس نے اور وار ابرووں کا چل گیا
اک چھری سیدھی پھری اور اک ذرا الٹی پھری
لا سکا نظارۂ رخسار روشن کی نہ تاب
جا کے آئینہ پہ چہرہ کی ضیا الٹی پھری
راست بازوں ہی کو پیسا آسماں نے رات دن
وائے قسمت جب پھری یہ آسیا الٹی پھری
جو بڑا بول ایک دن بولے تھے پیش آیا وہی
گنبد گردوں سے ٹکرا کر صدا الٹی پھری
رزق کھا کر غیر کی قسمت کا زنبور عسل
تو نے دیکھا حلق تک جا کر غذا الٹی پھری
تو ستائش گر ہے اس کا جو ہے تیرا مدح خواں
یہ تو اے مشفق ضمیر مرحبا الٹی پھری
جس پر آئی تھی طبیعت کی اسی نے کچھ نہ قدر
جنس دل مانند جنس ناروا الٹی پھری
یا تو کشی ڈوبتی تھی یا چلی ساحل سے دور
وائے ناکامی پھری بھی تو ہوا الٹی پھری
گرنے والا ہے کسی دشمن پہ کیا تیر شہاب
آسماں تک جا کے کیوں آہ رسا الٹی پھری
جی گیا میں اس کے آ جانے سے دشمن مر گیا
دیکھ کر عیسیٰ کو بالیں پر قضا الٹی پھری
مر گیا بے موت میں آخر اجل بھی دور ہے
کوچۂ قاتل کا بتلا کر پتا الٹی پھری
ہجر کی شب مجھ کو الٹی سانس لیتے دیکھ کر
ایک ہی دم میں وہاں جا کر صبا الٹی پھری
ہے مرا ویرانۂ غم نظمؔ ایسا ہولناک
موج سیل آئی تو لے کر بوریا الٹی پھری
غزل
آ کے مجھ تک کشتیٔ مے ساقیا الٹی پھری
نظم طبا طبائی