آ کر عروج کیسے گرا ہے زوال پر
حیران ہو رہا ہوں ستاروں کی چال پر
اک اشک بھی ڈھلک کے دکھائے اب آنکھ سے
میں صبر کر چکا ہوں تمہارے خیال پر
آ آ کے اس میں مچھلیاں ہوتی رہیں فرار
ہنستی ہے جل پری بھی مچھیروں کے جال پر
مایوس ہو کے دیکھنا کیا آسمان کو
اڑنے کا شوق ہے تو مری جاں نکال پر
میں تنگ آ چکا ہوں کہ سمجھاؤں کس طرح
اک روز چھوڑ دوں گا تجھے تیرے حال پر
کچھ یاد ہے کہ میں نے بنائے تھے تیرے نقش
پھر اتنا ناز کیوں ہے تجھے خد و خال پر
مثل گلاب آپ جو مہکے ہیں باغ میں
بوسہ وصول کیجیے تتلی کا گال پر
تفریق کس طرح سے کرو گے یہاں پہ زیبؔ
انساں لکھا ہوا ہے درندوں کی کھال پر
غزل
آ کر عروج کیسے گرا ہے زوال پر
اورنگ زیب