EN हिंदी
آ کر نجات بخش دو رنج و ملال سے | شیح شیری
aa kar najat baKHsh do ranj-o-malal se

غزل

آ کر نجات بخش دو رنج و ملال سے

شوق سالکی

;

آ کر نجات بخش دو رنج و ملال سے
دل مطمئن نہیں ہے تمہارے خیال سے

اف گردش نصیب کہ ہشیار ہو کے بھی
محفوظ رہ سکے نہ زمانے کی چال سے

یہ کیوں کہوں کہ مجھ سے انہیں پیار ہے مگر
اک واسطہ ضرور ہے میرے خیال سے

تھا کون یہ خبر نہیں بس اتنا یاد ہے
ٹکرائی تھی نگاہ کسی کے جمال سے

دل بستگی کی اس سے کوئی کیا کرے امید
جو کھیلتا رہا ہو دل پائمال سے

ایسا نہ ہو کہ ایسے ہی بن جائیں آپ بھی
مت کیجیئے گریز کسی خستہ حال سے

جاتا رہے گا شوقؔ تڑپنے کا اب مزہ
غم بڑھ رہا ہے آج حد اعتدال سے