آ جاؤ کہ مل کر ہم جینے کی بنا ڈالیں
یہ بار حیات اے دوست اٹھنے کا نہیں تنہا
دنیا پہ مسلط ہے اوہام کی تاریکی
ہم ہیں کہ جلائے ہیں اک شمع یقیں تنہا
محتاج توجہ ہیں کچھ اور مسائل بھی
کیوں ذہن میں پھرتی ہے اک نان جویں تنہا
ہر مرغ خوش الحاں اب پرواز پہ مائل ہے
گلشن میں نہ رہ جائے صیاد کہیں تنہا
سجدے در جاناں پر لاکھوں نے کیے لیکن
معیار وفا ٹھہری میری ہی جبیں تنہا
اک حسن تصور ہے جو زیست کا ساتھی ہے
وہ کوئی بھی منزل ہو ہم لوگ نہیں تنہا
نزدیک حفیظؔ اس کے رند آئیں تو کیا آئیں
جاگیر ہے زاہد کی سرمایۂ دیں تنہا
غزل
آ جاؤ کہ مل کر ہم جینے کی بنا ڈالیں (ردیف .. ا)
حفیظ بنارسی