آ جا اندھیری راتیں تنہا بتا چکا ہوں
شمعیں جہاں نہ جلتیں آنکھیں جلا چکا ہوں
خورشید شام رفتہ لوٹے تو اس سے پوچھوں
میں زندگی کی کتنی صبحیں گنوا چکا ہوں
امید و بیم شب نے یہ بھی بھلا دیا ہے
کتنے دیے جلائے کتنے بجھا چکا ہوں
میں بازگشت دل ہوں پیہم شکست دل ہوں
وہ آزما رہا ہوں جو آزما چکا ہوں
یہ شب بجھی بجھی ہے شاید کہ آخری ہے
اے صبح درد تیرے نزدیک آ چکا ہوں
مجھ کو فریب مت دے اے موسم بہاراں
ایسے کئی شگوفے میں بھی کھلا چکا ہوں
سورج طلوع ہو یا سورج غروب صہباؔ
شب ہائے غم کے پردے خود پر گرا چکا ہوں
غزل
آ جا اندھیری راتیں تنہا بتا چکا ہوں
صبا اختر