آ گیا ہے وقت اب بھگتو گے خمیازے بہت
ہم فقیروں پر کسے تم نے بھی آوازے بہت
تم نے جو قصے کیے منسوب میری ذات سے
تھی حقیقت ان میں تھوڑی اور اندازے بہت
جن کو اپنی کامیابی کا بڑا پندار تھا
ہم نے دیکھے ہیں بکھرتے ان کے شیرازے بہت
گھٹ نہ جائے دم کہیں نفرت کے اس ماحول میں
کر لئے ہم نے مقفل دل کے دروازے بہت
شہر کے میلے میں یوں تو گل رخوں کی بھیڑ تھی
ان میں چہرے تھے مگر کم اور تھے غازے بہت
بس وہی ہوگا رضا کو تیری جو منظور ہے
کام آئیں گے نہ کمپیوٹر کے اندازے بہت
ہم نے ٹھکرائے نہ جانے کتنے آنکھوں کے پیام
مہ وشوں نے ہم پہ کھولے دل کے دروازے بہت
رفتہ رفتہ وقت کے مرہم سے بھر ہی جائیں گے
عشق نے جو زخم بخشے ہیں ابھی تازے بہت
ہم شریف انساں شبابؔ اس گھر میں نا محفوظ ہیں
اس میں دروازے تو کم ہیں چور دروازے بہت
غزل
آ گیا ہے وقت اب بھگتو گے خمیازے بہت
شباب للت