آ گئے پھر ترے ارمان مٹانے ہم کو
دل سے پہلے یہ لگا دیں گے ٹھکانے ہم کو
سر اٹھانے نہ دیا حشر کے دن بھی ظالم
کچھ ترے خوف نے کچھ اپنی وفا نے ہم کو
کچھ تو ہے ذکر سے دشمن کے جو شرماتے ہیں
وہم میں ڈال دیا ان کی حیا نے ہم کو
ظلم کا شوق بھی ہے شرم بھی ہے خوف بھی ہے
خواب میں چھپ کے وہ آتے ہیں ستانے ہم کو
چار داغوں پہ نہ احسان جتاؤ اتنا
کون سے بخش دیئے تم نے خزانے ہم کو
بات کرنے کی کہاں وصل میں فرصت بیخودؔ
وہ تو دیتے ہی نہیں ہوش میں آنے ہم کو
غزل
آ گئے پھر ترے ارمان مٹانے ہم کو
بیخود دہلوی