EN हिंदी
آ گئے کیا چراغ آنکھوں کے | شیح شیری
aa gae kya charagh aankhon ke

غزل

آ گئے کیا چراغ آنکھوں کے

رشید امکان

;

آ گئے کیا چراغ آنکھوں کے
عرش پر ہیں دماغ آنکھوں کے

بوڑھا ہوتا ہوں اشک باری میں
کب دھلیں گے یہ داغ آنکھوں کے

زندگی بھر یوں ہی مہکتے رہیں
میری بانہوں میں باغ آنکھوں کے

آج کے بعد اگر تجھے دیکھوں
ٹوٹ جائیں ایاغ آنکھوں کے

آئنوں ہی میں وہ چھپا ہے کہیں
معتبر ہیں سراغ آنکھوں کے