آ گئے ہو تو رہو ساتھ سحر ہونے تک
ہم بھی شاید ہیں یہی رات بسر ہونے تک
نامہ بر سست قدم اس پہ یہ راہ دشوار
زندہ رہنا ہے ہمیں ان کو خبر ہونے تک
دم نہیں لیں گے کسی طور یہ کھاتے ہیں قسم
ظلم کی آہنی دیوار میں در ہونے تک
آسمانوں سے لڑی دل سے نکل کر اک آہ
ایک پل چین سے بیٹھی نہ اثر ہونے تک
عقل خاموش تماشائی کی تصویر بنی
عشق ٹکرایا ہے میدان کے سر ہونے تک
خواب غفلت سے نہ بیدار ہوئے ہم جو ابھی
ظلم بڑھتا ہی رہے گا یہ سحر ہونے تک
اس کے کن کہنے سے تخلیق ہوئے کون و مکاں
دیر کیا لگتی ہے مٹی کو بشر ہونے تک
لوٹ آنے کو کہا اس نے تو آنکھیں اطہرؔ
ہم نے رستے پہ رکھیں اس کا گزر ہونے تک
غزل
آ گئے ہو تو رہو ساتھ سحر ہونے تک
اطہر شکیل