اے زیست ہمیں تنگ نہ کر اس سے زیادہ
اتنا تو سہا ہم نے مگر اس سے زیادہ
ہم خود بھی کمر باندھ کے تیار ہیں قاصد
کیا ہوگی ترے پاس خبر اس سے زیادہ
یہ دل کی دعا ہے اسے کچھ کم نہ سمجھیے
ہوگا ابھی کچھ اور اثر اس سے زیادہ
یہ سوچ کے کل رات ہمیں نیند نہ آئی
کل ہوگی گراں اور سحر اس سے زیادہ
ممکن ہے یہ ہنگامہ ابھی بس نہ سمجھ سوزؔ
کرنی ہو تجھے عمر بسر اس سے زیادہ

غزل
اے زیست ہمیں تنگ نہ کر اس سے زیادہ
کانتی موہن سوز