ہنگامہ ہائے بادہ و پیمانہ دیکھ کر
ہم رک گئے ہیں راہ میں مے خانہ دیکھ کر
با احترام ساغر و مینا بڑھا دیئے
ساقی نے میری جرأت رندانہ دیکھ کر
پھر یاد آ گئی ہے تری چشم مے فروش
محفل میں رقص بادہ و پیمانہ دیکھ کر
حیراں ہوں ان کے دیدۂ حیراں کو کیا کہوں
دیوانے ہو گئے مجھے دیوانہ دیکھ کر
توبہ کا احترام بھی لازم رہا مگر
نیت بدل گئی مری پیمانہ دیکھ کر
ہر آستاں سے گرچہ رہے بے نیاز ہم
سجدے میں گر گئے در مے خانہ دیکھ کر
غزل
ہنگامہ ہائے بادہ و پیمانہ دیکھ کر
عرش صہبائی