EN हिंदी
خواب نادم ہیں کہ تعبیر دکھانے سے گئے | شیح شیری
KHwab nadim hain ki tabir dikhane se gae

غزل

خواب نادم ہیں کہ تعبیر دکھانے سے گئے

شاذ تمکنت

;

خواب نادم ہیں کہ تعبیر دکھانے سے گئے
سائے سائے مری نیندوں کے سرہانے سے گئے

یوں بھی وہ دل ہو کہ درہم پہ کھلا رہتا ہے
اپنی اک وضع جنوں تھی کہ بہانے سے گئے

راکھ الاؤ کی یہ بکھری ہوئی جنگل کی یہ شام
کیا زمانے گئے کیا لوگ زمانے سے گئے

کوئی تصویر سر آب اٹھاتا ہے بھلا
اب ہمیں ڈھونڈھتے کیا ہو کہ اٹھانے سے گئے

شاذؔ جی عشق میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے
تم ہوئے قیس ہوئے دونوں ٹھکانے سے گئے