وہ گداگران جلوہ سر رہ گزار چپ تھے
جنہیں تجھ سے تھیں امیدیں وہ امیدوار چپ تھے
وہ قطار گمرہاں تھی لئے مشعلیں رواں تھی
وہ جو منزل آشنا تھے وہ پس غبار چپ تھے
یہ عجیب سانحہ تھا جسے چشم گل نے دیکھا
کہ طیور دام دیدہ سر شاخسار چپ تھے
کسے جرأت تسلی کہ وہ بات ہی تھی ایسی
شب انتظار چپ تھی مرے غم گسار چپ تھے
ہمیں کم ملیں سزائیں کہ زیادہ تھیں خطائیں
ترے سہو کیا گنائیں ترے شرمسار چپ تھے
یہ دل و نظر فگاراں یہی تھی وہ وضع داراں
پس کوئے یار گریاں سر کوئے یار چپ تھے
ہوئی ہم پہ سنگ باری مگر اپنی وضع داری
کہ تھی شاذؔ جن سے یاری وہی اپنے یار چپ تھے

غزل
وہ گداگران جلوہ سر رہ گزار چپ تھے
شاذ تمکنت