EN हिंदी
ذرے ذرے ہیں عکس کے ہر سو | شیح شیری
zarre zarre hain aks ke har-su

غزل

ذرے ذرے ہیں عکس کے ہر سو

سیما شرما میرٹھی

;

ذرے ذرے ہیں عکس کے ہر سو
ریزہ ریزہ ہیں آئینے ہر سو

یاد کی برق ہو گئی رقصاں
اور آنسو برس پڑے ہر سو

جب سے پانی مرا ہے آنکھوں کا
شہر کے شہر جل گئے ہر سو

خوشبوئیں گم ہوئی کہاں جانے
کاغذی پھول ہی ملے ہر سو

ڈھلتے سورج نے رات بوئی تھی
گل ستاروں کے کھل گئے ہر سو

شب کا گھونگھٹ اٹھایا سورج نے
ذرے ذرے چمک اٹھے ہر سو

خوبصورت غزل بنی دلہن
میزبانی میں لفظ تھے ہرسو

کوئی گاہک نظر نہیں آتا
اور بازار کھل گئے ہر سو

سوکھتے پیڑ سے گرے پتے
پھر پرندے بھی اڑ گئے ہر سو

بندشیں توڑ دی ہیں دریا نے
اور زمیں پر ہیں زلزلے ہر سو

بن نہ پاے کمہار سے کچھ ہم
چاک پر گھومتے رہے ہر سو

تلوے میں تل سبب سفر کا ہے
گرد اس تل کے آبلہ ہر سو

تیری یادیں سراب صحرا کے
تو ہی سیماؔ کو اب دکھے ہر سو