EN हिंदी
نشا شیاری | شیح شیری

نشا

21 شیر

یہاں کوئی نہ جی سکا نہ جی سکے گا ہوش میں
مٹا دے نام ہوش کا شراب لا شراب لا

مدن پال




نشہ میں سوجھتی ہے مجھے دور دور کی
ندی وہ سامنے ہے شراب طہور کی

نظم طبا طبائی




ہم انتظار کریں ہم کو اتنی تاب نہیں
پلا دو تم ہمیں پانی اگر شراب نہیں

نوح ناروی




اتنی پی ہے کہ بعد توبہ بھی
بے پیے بے خودی سی رہتی ہے

ریاضؔ خیرآبادی




لوگ کہتے ہیں رات بیت چکی
مجھ کو سمجھاؤ! میں شرابی ہوں

ساغر صدیقی




چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے

شہاب جعفری




ترک مے ہی سمجھ اسے ناصح
اتنی پی ہے کہ پی نہیں جاتی

شکیل بدایونی