جامہ زیبوں کو کیوں تجوں کہ مجھے
گھیر رکھتا ہے دور دامن کا
ولی محمد ولی
آج تیری بھواں نے مسجد میں
ہوش کھویا ہے ہر نمازی کا
ولی محمد ولی
گل ہوئے غرق آب شبنم میں
دیکھ اس صاحب حیا کی ادا
ولی محمد ولی
دل عشاق کیوں نہ ہو روشن
جب خیال صنم چراغ ہوا
ولی محمد ولی
دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا
ہے مطالعہ مطلع انوار کا
ولی محمد ولی
چھپا ہوں میں صدائے بانسلی میں
کہ تا جانوں پری رو کی گلی میں
ولی محمد ولی
چاہتا ہے اس جہاں میں گر بہشت
جا تماشا دیکھ اس رخسار کا
ولی محمد ولی
اے نور جان و دیدہ ترے انتظار میں
مدت ہوئی پلک سوں پلک آشنا نئیں
ولی محمد ولی
آرزوئے چشمۂ کوثر نئیں
تشنہ لب ہوں شربت دیدار کا
ولی محمد ولی