EN हिंदी
شوکت پردیسی شیاری | شیح شیری

شوکت پردیسی شیر

34 شیر

ہوش والے تو الجھتے ہی رہے
راستے طے ہوئے دیوانوں سے

شوکت پردیسی




حدود جسم سے آگے بڑھے تو یہ دیکھا
کہ تشنگی تھی برہنہ تری اداؤں تک

شوکت پردیسی




حسن اخلاص ہی نہیں ورنہ
آدمی آدمی تو آج بھی ہے

شوکت پردیسی




اس فیصلے پہ لٹ گئی دنیائے اعتبار
ثابت ہوا گناہ گنہ گار کے بغیر

شوکت پردیسی




جب مصلحت وقت سے گردن کو جھکا کر
وہ بات کرے ہے تو کوئی تیر لگے ہے

شوکت پردیسی




جی میں آتا ہے کہ شوکتؔ کسی چنگاری کو
کر دوں پھر شعلہ بداماں کہ کوئی بات چلے

شوکت پردیسی




خود وہ کرتے ہیں جسے عہد وفا سے تعبیر
سچ تو یہ ہے کہ وہ دھوکا بھی مجھے یاد نہیں

شوکت پردیسی