EN हिंदी
شکیب جلالی شیاری | شیح شیری

شکیب جلالی شیر

37 شیر

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے

شکیب جلالی




آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے
تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر

شکیب جلالی




عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ

شکیب جلالی




ابھی ارمان کچھ باقی ہیں دل میں
مجھے پھر آزمایا جا رہا ہے

شکیب جلالی




بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا
ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا

شکیب جلالی




بس ایک رات ٹھہرنا ہے کیا گلہ کیجے
مسافروں کو غنیمت ہے یہ سرائے بہت

شکیب جلالی




دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ
جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بک جائے گا

شکیب جلالی




ایک اپنا دیا جلانے کو
تم نے لاکھوں دیے بجھائے ہیں

شکیب جلالی




فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

شکیب جلالی