یوں تو سارا چمن ہمارا ہے
پھول جتنے بھی ہیں پرائے ہیں
شکیب جلالی
گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا
ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا
شکیب جلالی
آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے
تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر
شکیب جلالی
عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
شکیب جلالی
ابھی ارمان کچھ باقی ہیں دل میں
مجھے پھر آزمایا جا رہا ہے
شکیب جلالی
بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا
ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا
شکیب جلالی
بس ایک رات ٹھہرنا ہے کیا گلہ کیجے
مسافروں کو غنیمت ہے یہ سرائے بہت
شکیب جلالی
دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ
جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بک جائے گا
شکیب جلالی
ایک اپنا دیا جلانے کو
تم نے لاکھوں دیے بجھائے ہیں
شکیب جلالی