EN हिंदी
شکیب جلالی شیاری | شیح شیری

شکیب جلالی شیر

37 شیر

فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

شکیب جلالی




آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے

شکیب جلالی




ہم سفر رہ گئے بہت پیچھے
آؤ کچھ دیر کو ٹھہر جائیں

شکیب جلالی




اس شور تلاطم میں کوئی کس کو پکارے
کانوں میں یہاں اپنی صدا تک نہیں آتی

شکیب جلالی




جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے

شکیب جلالی




جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

شکیب جلالی




جو موتیوں کی طلب نے کبھی اداس کیا
تو ہم بھی راہ سے کنکر سمیٹ لائے بہت

شکیب جلالی




کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم
ڈوبے تھے گہری رات میں کالے ہوئے نہیں

شکیب جلالی




کوئی بھولا ہوا چہرہ نظر آئے شاید
آئینہ غور سے تو نے کبھی دیکھا ہی نہیں

شکیب جلالی